مسائل وفتاویٰ
مٹی اور گوبر کے مخلوط سے لپی
ہوئی زمین پر نماز پڑھنا کیسا ہے؟
باسمہ تعالیٰ
کیا فرماتے ہیں علماء دین
ومفتیان شرع متین اس بارے میں کہ ہمارے گاؤں میں نماز جنازہ
ایسی جگہ پڑھی جاتی ہے، جہاں مٹی اور گوبر سے مخلوط
گارے سے گوبری پھیری جاتی ہے۔ ایک مرتبہ جب
نماز پڑھنے کے لیے جنازہ رکھا گیا تو ایک مفتی صاحب نے
کہا کہ یہاں نماز پڑھنا جائز نہیں؛ اس لیے کہ گوبری پھیرنے
کی وجہ سے یہ زمین ناپاک ہوگئی اور حوالہ میں ”باقیات
فتاویٰ رشیدیہ“ میں حضرت گنگوہی کا ایک فتویٰ
پیش کیا جس میں یہ ہے کہ ”جس گارے میں گوبر ملا ہو
وہ نجس ہے؛ مگر زمین دیوار اُس سے لہسنا (لیپنا) درست ہے پھر جب
خشک ہوجائے تو بغیر کچھ بچھائے اُس پرنماز نہیں ہوگی؛ مگر جب
گوبر کو مٹی بالکل فنا کردے اور گوبر کا اثر باقی نہ رہے تو زمین
اور دیوار پاک ہوجاتی ہے۔“ (۱۳۴-۱۳۵)
اتفاق سے وہاں ایک مفتی صاحب
اور موجود تھے انھوں نے کہا کہ نماز ہوجائے گی؛ کیونکہ گوبری پھیرنے
کی وجہ سے زمین ناپاک نہیں ہوتی خصوصاً جب سوکھ جائے اور
حوالہ میں شامی کی عبارت ”السّرقین
اذا جعل فی الطین للتّطیین لا ینجس لأن فیہ
ضرورة الی اسقاط نجاستہ لأنہ لا یتھیّأ الاّ بہ“ (شامی، ۱/۴۹۰،
دارالکتاب) اور استدلال کے طور پر کہا کہ جب ضرورت کی وجہ سے گارے میں
گوبرکی نجاست کو ساقط کرتے ہوئے اُس کے ناپاک نہ ہونے کا حکم ہے تو اُس پر
ننگے پیر کھڑے ہوکر نماز پڑھنا درست ہے۔
جب مفتیانِ کرام میں اختلاف
ہوگیا تو اُس وقت تو نمازِ جنازہ دوسری جگہ پڑھ لی گئی
پھر یہ طے ہوا کہ دونوں مفتیوں کے بتائے ہوئے حکم کو لکھ کر دارالعلوم
بھیجا جائے؛ تاکہ محقق ومدلل طور پر جواب معلوم ہوجائے۔
سو یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں
کہ کیا گوبر اور مٹی سے مخلوط گارے سے پھیری ہوئی
گوبری پر ننگے پیر کھڑے ہوکر نماز جنازہ پڑھنا درست ہے یا نہیں؟
اگر درست ہے تو پھر گنگوہی کے قول کے مرجوح
ہونے کی کیا وجہ ہے اور اگر درست نہیں ہے اور حضرت گنگوہی کا فتویٰ
صحیح ہے تو حضرت گنگوہی کے فتویٰ کا مآخذ کیا ہے؟
اور پھر شامی کی عبارت کے
مرجوح ہونے کی تصریحات فقہیہ کی روشنی میں کیا
وجہ ہے؟ نیز اِس گوبری پر نماز درست ہونے کی صورت میں
سوکھی اور گیلی گوبری کا حکم برابر ہے یا کچھ تفصیل
ہے؟
برائے کرم عبارات فقہیہ کی
روشنی میں محقق ومدلل طور سے ایسا فتویٰ تحریر
کریں جس سے فریقین کا دل مطمئن ہوجائے، عین نوازش ہوگی۔
فقط والسلام
المستفتی: محمد ثاقب مظفرنگری
متعلّم دارالعلوم دیوبند
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب بعون مُلْہِمِ الصواب: مذکورہ
مسئلے میں حضرت گنگوہی کا فتویٰ درست ہے اور علامہ ابن عابدین شامی کی عبارت بھی
صحیح ہے اور دونوں میں کوئی ٹکراؤ نہیں ہے، دراصل یہاں
دو چیزیں ہیں، ایک ہے فرش، دیوار وغیرہ کو مٹی
اور گوبر کے مخلوط گارے سے لیپنا اور دوسری چیز ہے اس پر ننگے پیر
کھڑے ہوکر نماز پڑھنا۔ پہلے امر کا جواب یہ ہے کہ یہ ضرورتاً
جائز ہے اور بربنائے ضرورت اس کی نجاست ساقط ہے، یعنی اصلاً تو
مسجد کو ایسی مٹی سے لیپنا ممنوع ومکرو ہ ہے جس میں
ناپاکی ملی ہوئی ہو؛ لیکن اگر مٹی میں گوبر
ملادیاگیا ہو تو اس سے لیپنے کی گنجائش اس معنی کر
ہے کہ لیپنے کا مقصد اس کے بغیر پورا نہیں ہوتا؛ اس لیے
ضرورةً اس کی نجاست معاف ہے ولا تطیینہ بنجس قولہ (ولا تطیینہ
بنجس) فی الفتاویٰ الھندیہ: یکرہ أن یطین
المسجد بطین قد بل بماء نجس بخلاف السرقین اذا جعل فیہ الطین،
لأن فی ذلک ضرورة وھو تحصیل غرض لا یحصل الّا بہ کذا فی
السراجیہ (شامی زکریا ۲/۴۲۹ باب ما یفسد
الصلاة وما یکرہ فیھا) علامہ عبدالقادر رافعی تو فرماتے ہیں کہ یہ ضرورت بھی علامہ شامی
کے زمانے میں تھی ہمارے زمانے میں اس کی بھی ضرورت
نہیں رہی قولہ: بخلاف السرقین“ الظاھر أن ھذا فی
زمنھم لتحقق الضرورة، لا فی زماننا لعدم تحققھا (تقریرات رافعی) حضرت مفتی
محمد سلمان صاحب منصورپوری لکھتے ہیں: ”اگر پاک مٹی کے ساتھ
گوبر ملا کر گارا بنایا جائے یا اس سے زمین لیپی
جائے تو اس گارے پر بربنائے ضرورت ناپاکی کا حکم نہیں لگے گا“ (کتاب
المسائل/۱۰۸) دوسرے امر کا جواب یہ ہے کہ اس پر مصلیٰ
وغیرہ کچھ بچھائے بغیر ننگے پیر کھڑے ہوکر نماز پڑھنا درست نہیں
گویا تطیین کے باب میں ضرورةً پاک ہے؛ لیکن جواز
صلوٰة کے باب میں ناپاکی کا حکم برقرار رہے گا اور اس کی
نظیر یہ ہے کہ اگر کوئی زمین پر پیشاب کردے اور پھر
وہ خشک ہوجائے تو زکاة الارض یُبسہا کے پیش نظر اس پر نماز پڑھنا درست
ہے؛ لیکن اس جگہ سے تیمم کرنا درست نہیں؛ اس لیے کہ تیمم
کے لیے پاک مٹی کی شرط ہے فَتَیَمَّمُواْ
صَعِیداً طَیِّباً الآیة، ہاں اگر مٹی، گوبر کو بالکل فنا
کردے اور گوبر کا اثر باقی نہ رہے تو اب انقلابِ ماہیت کے بعد وہ جگہ
پاک ہوجائے گی اور اس پر ننگے پیر نماز پڑھنا درست ہے اور گوبری
خواہ سوکھا ہو یا گیلا ہرصورت میں ناپاک ہے، محض خشک ہونے سے
پاکی کا حکم نہ ہوگا؛ جب تک کہ انقلابِ ماہیت نہ ہوجائے وقیل
أیھما کان نجساً فالطین نجس، واختارہ ابواللیث وصححہ فی
الخانیة وغیرھا وقوّاہ فی شرح المنیة وحکم بفساد بقیة
الأقوال، تأمل وصححہ فی المحیط أیضاً بخلاف السرقین اذا
جعل فی الطّین للتطیین لا ینجس لأن فیہ ضرورة
الی اسقاط نجاستہ؛ لأنہ لا یتہیأ الّا بہ (شامی زکریا ۱/۵۶۵)
فقط واللہ اعلم
وقار علی غفرلہ
دارالافتاء دارالعلوم دیوبند
۵/۶/۱۴۳۸ ھ
الجواب صحیح
محمود حسن غفرلہ، حبیب الرحمن عفا اللہ عنہ
۵/۶/۱۴۳۸ھ
$$$
-------------------------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ5-6، جلد:101 ،شعبان۔رمضان
1438 ہجری مطابق مئی۔جون 2017ء